میں تو بس خاک ہوں اک روز بکھر جاؤں گی
چند لمحے سہی خود کو تو سجا کر رکھوں
Printable View
میں تو بس خاک ہوں اک روز بکھر جاؤں گی
چند لمحے سہی خود کو تو سجا کر رکھوں
تم رگ و پے سے لپٹ جاؤ چنبیلی کی طرح
اور میں یاد کو خوشبو میں بسا کر رکھوں
میں نے چاہا ہے تمہیں ایک صحیفے کی طرح
دل و جاں آیۂ مژگاں سے لگا کر رکھوں
تم جو کہہ دو کہ شبِ تار میں آنا ہے تمہیں
میں ہواؤں کو چراغوں میں رچا کر رکھوں
تم جو آتے ہو تو جی لیتی ہوں ورنہ اکثر
اپنی آہوں کو بھی سینے میں دبا کر رکھوں
زندگی بھر میں تعاقب کروں سائے کی طرح
پاؤں رکھوں تو قدم تم سے ملا کر رکھوں
کب تک ڈرے کوئی تری بجلی کے خوف سے
جتنی ہے جس کے نام خدایا گرا بھی دے
گھٹنوں کے بل سہی یہ مسافت ہوئی تمام
دہلیزِ جاں پہ بھی مرے پاؤں نہ رک سکے
طوفان میں چٹان کی صورت کھڑی رہی
دریا نہ تھی کہ راہ بدلتی نئے نئے
کمزور آسمان سے لڑنا فضول ہے
ایسا نہ ہو کہ لاگ میں سر پر ہی آگرے