سب سرحدوں سے شوق کی ہم پار ہو گئے
تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے
Printable View
سب سرحدوں سے شوق کی ہم پار ہو گئے
تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے
ہر جنبشِ بدن کے تقاضے تھے مختلف
جذبے تمام مائلِ اظہار ہو گئے
زندہ رہے جو تُجھ سے بچھڑ کر بھی مُدّتوں
ہم لوگ کس قدر تھے جگر دار ہو گئے
اپنے بدن کے لمس کی تبلیغ دیکھنا
ہم سحرِ آذری کے پرستار ہو گئے
دو وقت، دو بدن تھے، کہ جانیں تھیں دو بہم
رستے تمام مطلعِ انوار ہو گئے
ماجد ہے کس کا فیضِ قرابت کہ اِن دنوں
پودے سبھی سخن کے ثمر دار ہو گئے
سورج سا نگاہ میں مچلنا
آغوش سے چاند بن کے ڈھلنا
انمول ہیں سب گِلے یہ تیرے
یہ لعل لبوں سے پھر اُگلنا
چھپنا پسِ ابر چاند جیسا
لہروں سا سرِ نظر اُچھلنا
ہیں شاخِ نظر کے یہ تقاضے
یہ برگ نہ ہاتھ سے مسلنا