کاغذی امید کی کشتی، حقیقت کا سفر
آگ میں چلنا پڑا اک خواب میں کر کے قیام
Printable View
کاغذی امید کی کشتی، حقیقت کا سفر
آگ میں چلنا پڑا اک خواب میں کر کے قیام
ضبط کا آنچل کبھی وابستگی کا پیراہن
یاس میں لپٹا رہا جسمِ تمنا بس مدام
منزلِ نادیدہ کی جانب رواں تھے نیند میں
اور غم کی سرزمیں کے خون آلودہ تھے گام
رات بھر رویا کروں یادوں کے بستر میں پڑے
کروٹیں لے کر شبِ تیرہ کہاں ہو گی تمام
سکونِ دل کے لئے ایک ہی دوا کی تھی
خدا سے بارہا تیری ہی التجا کی تھی
یہ پاؤں پھر تری دہلیز سے ہٹے ہی نہیں
مسافتوں کی ترے در پہ انتہا کی تھی
وہ جن گناہوں کی لذت ثواب جیسی تھی
ترے ہی نام سے ان سب کی ابتدا کی تھی
بتاؤں ترکِ مراسم کا کیا سبب کہ مری
محبتوں کی کہانی تو بس جفا کی تھی
ہوا تھا تیرا گماں خود پہ بارہا مجھ کو
مہک تیری مجسم بدن میں کیا کی تھی
عالم وگرنہ عشق میں کیا کیا نہیں لگا
دیکھا تھا جیسا خواب میں ، ویسا نہیں لگا