چاند میں دیکھا کئے چہرہ ترا
گونجتی شہنائی سے لپٹے رہے
Printable View
چاند میں دیکھا کئے چہرہ ترا
گونجتی شہنائی سے لپٹے رہے
وصل کی بد شکل تصویروں میں ہم
ہجر کی رعنائی سے لپٹے رہے
زندگی کے ساحلوں پر عمر بھر
بے بسی کی کائی سے لپٹے رہے
بجلیاں کوندیں جو تیری یاد کی
خواب استقرائی سے لپٹے رہے
مسمار کر کے خواب مرے وہ چلا گیا
لے کر گل و گلاب مرے وہ چلا گیا
ساری حقیقتیں سرِ بازار کھل گئیں
یوں نوچ کر نقاب مرے وہ چلا گیا
کیا کیا نہ درد دے گیا رونے کے واسطے
زخموں سے بھر کے باب مرے وہ چلا گیا
آہیں بچھا گیا مری سانسوں کے آس پاس
کر کے سوا عذاب مرے وہ چلا گیا
اک لذتِ گناہ فقط رہ گئی ہے پاس
لے کر سبھی ثواب مرے وہ چلا گیا
پھر ہوائے نم میں خالی ہو گئے آنکھوں کے جام
دیکھ تُو آ کر ، گزاری کس طرح اک اور شام