ہم نے اُس کے نہ اشارے سمجھے
لعل ہاتھوں سے گنوائے کیا کیا
Printable View
ہم نے اُس کے نہ اشارے سمجھے
لعل ہاتھوں سے گنوائے کیا کیا
گُل بہ گُل اُس کے فسانے لکھ کر
درد موسم نے جگائے کیا کیا
لفظ اُس شوخ کے عشووں جیسے
ہم نے شعروں میں سجائے کیا کیا
حرف در حرف شگوفے ہم نے
اُس کے پیکر کے، کھلائے کیا کیا
لُطف کے سارے مناظر ماجدؔ
جو بھی دیکھے تھے دکھائے کیا کیا
حُسن اُس کا بحّدِ نہاں دیکھنا
چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا
کیوں نہ ہم اِس ادا پر ہی مرتے رہیں
چھیڑنا اور اُسے بدگماں دیکھنا
کنجِ لب جیسے کھڑکی کھُلے خُلد کی
قامت و قد کو طوبیٰ نشاں دیکھنا
ہائے وُہ ہاتھ جن کی ہے تحریر وُہ
حرف در حرف مخفی جہاں دیکھنا
اُس کے رُخ پرنظر کا نہ ٹِکنا تو پھر
دفعتاً جانبِ آسماں دیکھنا