اب ملے خود سے زمانہ ہو گیا
یہ کہاں میرا ٹھکانہ ہو گیا
Printable View
اب ملے خود سے زمانہ ہو گیا
یہ کہاں میرا ٹھکانہ ہو گیا
عشق کیا کہیے کہ بس الزام تھا
چوٹ کھائی تھی بہانہ ہو گیا
دیکھتے کیسے کہ بھر آئی تھی آنکھ
کس طرف کوئی روانہ ہو گیا
رات بھر برسات کی جل تھل کے بعد
خود بخود موسم سہانا ہو گیا
ٹوٹنے کی دل ، صدا آئی تو تھی
زد پہ تھا شاید نشانہ ہو گیا
زخم ِ دیرینہ ابھی تازہ ہی تھا
حادثہ پھر جارحانہ ہو گیا
جہاں میں درد کا ہر رابطہ ہے میرے لئے
کوئی کٹھن ہے تو وہ راستہ ہے میرے لئے
خیال بھی نہیں آتا کہ نیند کیا شے ہے
یہ رتجگوں کا عجب سلسلہ ہے میرے لئے
عجب حصار میں ہوں ماورائی آنکھوں کے
قدم قدم پہ کوئی دائرہ ہے میرے لئے
چراغ گل ، شبِ تاریک ، وحشتِ گریہ
جتن سہی پہ مرا سانحہ ہے میرے لئے