وہ جن میں جھانک کے سنبھلیں مرے نواح کے لوگ
میں اُس طرح کے کہاں آئنے تلاش کروں
Printable View
وہ جن میں جھانک کے سنبھلیں مرے نواح کے لوگ
میں اُس طرح کے کہاں آئنے تلاش کروں
جو آنچ ہی سے مبّدل بہ آب ہوتے ہیں
میں گرم ریت میں وہ آبلے تلاش کروں
بھگو کے گال، سجا کر پلک پلک آنسو
’ اُداس دل کے لئے مشغلے تلاش کروں
بیاضِ درد کی تزئین کے لئے ماجدؔ
وہ حرف رہ گئے جو، اَن کہے تلاش کروں
گھروں سے لے کے گھروں تک انا و نخوت کی
اُڑی وہ گرد کہ چہرے نکھار بھُول گئے
نصابِ ربط کے نقش و نگار بھُول گئے
گلاب رکھ کے کتابوں میں یار، بھُول گئے
ہوائے تُند نے جھٹکے کچھ اس طرح کے دئیے
ہمارا کس پہ تھا کیا اختیار؟ بھُول گئے
جنہیں گماں تھا نمو اُن تلک بھی پہنچے گی
وہ کھیت مرحلۂ انتظار، بھُول گئے
نہ جان پائے کہ مچلے گا، پھُول چہروں میں
یہ ہم کہ خوئے دلِ نابکار، بھُول گئے
قدم کدھر کو ،ارادے کدھر کے تھے اُن کے
یہ بات رن میں سبھی شہسوار، بھُول گئے
فضائے تخت ثمر بار دیکھ کر ماجدؔ
جو روگ شہر کو تھے، شہریار، بھُول گئے
منظر کی تزئین میں ’مانی‘ جیسا ہے
ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے
منظر کی تزئین میں ’مانی‘ جیسا ہے
ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے
رہبروں کے غبارے پھٹنے پر اپنا
عالم بّچوں کی حیرانی جیسا ہے
آنکھ میں اُس کے لبوں کا وداعی سنّاٹا
ہاتھ میں مُندری کی سی نشانی جیسا ہے
جس کی قبر کو ڈھانپنے تاج محل اُبھرے
وہ بے مثل ہے کون اُس رانی جیسا ہے
ہونٹ سِلے ہیں گویا بل بل ماتھے کا
تن میں ابلتا خوں طغیانی جیسا ہے
قّصہ اپنے ہاں کے سبھی منصوبوں کا
طوطے اور مَینا کی کہانی جیسا ہے
اُس چنچل کا قرب ہمیشہ کب حاصل
پل دو پل کا ساتھ جوانی جیسا ہے
اِس قطرے میں جانے الاؤ کیا کیا ہیں
آنکھ میں آنسو یوں تو پانی جیسا ہے
ماجدؔ تیرا فکر امینِ توانائی
اور سخن دریا کی روانی جیسا ہے
نقش بنا لے جو بھی خود کو مانی لگتا ہے
جس کا سخن ہو اُس کو وہ، لاثانی لگتا ہے
کم کم ایسا ہوتا ہے جب، آگ میں پھول کھلیں
معجزہ ایسا ہو تو وہ، یزدانی لگتا ہے
ہم تم سارے، خانہ بر دوشوں سے ہیں جن کو
جو موسم بھی آئے وہ، بُحرانی لگتا ہے
ہم کہ جنہیں حبسِ بے جا میں رکھا گیا، ہمیں
اپنا سُندر دیس بھی، کالا پانی لگتا ہے
جنگ و جدال کو گردانیں بس کھیل تماشا وُہ
فرعونوں کو اپنا بدن کب، فانی لگتا ہے
آج بھی ماجدؔ انسانوں سے انسانوں کا چلن
حیوانی لگتا ہے، غیر انسانی لگتا ہے
وسعتِ تِیرہ شبی ، تنہا روی ہے اور ہم
جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم
کیمیا گر تو ہمیں کندن بنا ڈالے مگر
آنچ بھر کی ایسا ہونے میں کمی ہے اور ہم
بھیڑیوں کی دھاڑ کو سمجھیں صدائے رہنما
خوش گماں بھیڑوں سی طبعی سادگی ہے اور ہم
کیا سلوک ہم سے کرے یہ منحصر ہے زاغ پر
گھونسلے کے بوٹ سی نا آگہی ہے اور ہم
ہاں یہی وہ فصل ہے پکنے میں جو آتی نہیں
زخمِ جاں کی روز افزوں تازگی ہے اور ہم
ناگہانی آندھیوں میں جو خس و خاشاک کو
جھیلنی پڑتی ہے وہ بے چارگی ہے اور ہم
ناخدا کو ناؤ سے دیکھا ہو جیسے کُودتے
دم بہ دم ماجد کچھ ایسی بے بسی ہے اور ہم
ہم جدھر دیکھیں فضا کے دوش پر، ایک جیسے دو دھڑوں میں جنگ ہے
دم نہیں توڑا ابھی ذی روح نے اور باہم کرگسوں میں جنگ ہے
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو انتقام، اس سے بڑھ کر اور کیا بگڑے نظام
سازشِ طوفاں چلی کچھ اس طرح، اک شجر کے شاخچوں میں جنگ ہے
ابر کی جن پر ردائیں ایک ہیں، ایک سے موسم ہوائیں ایک ہیں
متّصل جن کی چھتیں ہیں شہر میں، ان گھروں ان آنگنوں میں جنگ ہے
ایک کے ہونٹوں پہ دیپک ہے اگر، دوسرا ملہار کے سر چھیڑ دے
جن سے ماجدؔ لطفِ جاں منسوب ہے، اب کے اُن نغمہ گروں میں جنگ ہے
ہے کس کو یہاں کون سا آزار، نہ جانے
یہ سانحہ، کوئی بڑی سرکار نہ جانے
مٹی کو وہ بستر کرے، بازو کو سرہانہ
جو خانماں برباد ہے، گھر بار نہ جانے