معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
مشتاق ہیں کس ماہ کے انجم سے زیادہ
Printable View
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
مشتاق ہیں کس ماہ کے انجم سے زیادہ
صوفی جو سنے نالہ موزوں کو ہمارے
حالت ہو مغنی کے ترنم سے زیادہ
آئینے میں دیکھا ہے کو منہ چاند سا اپنا
خود گم ہے وہ بت، عاشق خود گم سے زیادہ
بجلی کو جلا دیں گے وہ لب دانت دکھا کر
شغل آج کل ان کو ہے تبسم سے زیادہ
کہتا ہے وہ شوخ آئینے میں عکس سے آتش
تم ہم سے زیادہ ہو تو ہم تم سے زیادہ
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا
رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا
گل و لالہ کو شرمایا تو ہوتا
چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
نہ کیوں کر حشر ہوتا دیکھتے ہو
قیامت قد ترا لایا تو ہوتا
سمجھتا یا نہ اے آتش سمجھتا
دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا