ہم ہی سے تو زباں کی حلاوت کا ذکر تھا
ہم ہی مثالِ تلخی ِ گفتار ہو گئے
Printable View
ہم ہی سے تو زباں کی حلاوت کا ذکر تھا
ہم ہی مثالِ تلخی ِ گفتار ہو گئے
چاند ، دریا ستارے چھوٹے ہیں
عشق کے استعارے جھوٹے ہیں
اس کے لہجے سے صاف ظاہر ہے
اس کے الفاظ سارے جھوٹے ہیں
ایک تنہائی ہی حقیقت ہے
اور باقی سہارے جھوٹے ہیں
کوئی موجود ہی نہیں مجھ میں
دل کے سندر نظارے جھوٹے ہیں
اک سمندر ہے اور کشتی ہے
زندگی کے کنارے جھوٹے ہیں
ہمسفر تم نہیں رہے میرے
ساتھ جو دن گزارے جھوٹے ہیں
جہاں وہ چلتے چلتے کھو گیا ہے
وہ رستہ مجھ کو ازبر ہو گیا ہے
پھر اس کی منتظر ہوں شدتوں سے
کہ مجھ میں مجھ سے مل کر جو گیا ہے
کوئی بے چین سا بچہ تھا مجھ میں
اور اب لگتا ہے تھک کر سو گیا ہے