زندگی کے شہر میں خاموشیاں چھا جائیں گی
اور سناٹوں میں ہم گھبرائیں گے تیرے بغیر
Printable View
زندگی کے شہر میں خاموشیاں چھا جائیں گی
اور سناٹوں میں ہم گھبرائیں گے تیرے بغیر
رات بھر باتیں کریں گے ہم تری تصویر سے
اور تیرا غم کسے بتلائیں گے تیرے بغیر
فاصلوں سے ضبط کا ہم کو تو اب یارا نہیں
خود کو کیسے کس طرح سمجھائیں گے تیرے بغیر
جب زندگی کے راستے دشوار ہو گئے
ہم حادثوں سے بر سر پیکار ہو گئے
اشکوں کے تار توڑ گیا وقت کا طلسم
ہم ہچکیوں سے روز کی بیزار ہو گئے
دیکھا اسے قریب سے ہم نے تو یوں ہوا
ہم خامشی سے مائلِ اغیار ہو گئے
جب انتظار تھا تو سویرا نہیں ہوا
سوتے رہے تو صبح کے آثار ہو گئے
بیکار حسرتوں کو ذرا چھانٹ کیا لیا
ہم اپنی منزلوں کے بھی مختار ہو گئے
آزاد تھے تو اپنی زمینیں بلند تھیں
ہاتھوں میں لے کے چاند گرفتار ہو گئے
ڈوبے ہیں ساحلوں کی سرکتی سی ریت میں
لے پانیوں کے ہم بھی طلب گار ہو گئے