کسی بھی پل پہ گماں اب فراق کا نہ رہا
خیال و خواب میں وہ گُل کھلا دئیے تُو نے
Printable View
کسی بھی پل پہ گماں اب فراق کا نہ رہا
خیال و خواب میں وہ گُل کھلا دئیے تُو نے
جنم جنم کے تھے سُر تال جن میں خوابیدہ
کُچھ ایسے تار بھی اب کے ہلا دئیے تُو نے
سخن میں لُطفِ حقائق سمو کے اے ماجدؔ
یہ کس طرح کے تہلکے مچا دئیے تُو نے
جب بھی دیکھوں یہ فلک، اَبر ہٹا کر دیکھوں
مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں
گلشنِ حُسن پہ ہو راج اِسی کا جیسے
ان دنوں مرغِ طلب کو وُہ لگے پر دیکھوں
اوج کے لمس سے پہنچوں بہ سرِ چشمۂ لُطف
پر جو اِیدھر سے اُتر پاؤں تو اُودھر دیکھوں
میری حیرت سے کھلے تُجھ پہ ترا حُسن مگر
آئنوں سا میں جبھی تُجھ کو برابر دیکھوں
لب پہ رقصاں ہے مرے، ہے جو پسِ چشم اُدھر
اِس شرارت میں بپا کتنے ہی محشر دیکھوں
بِین سا سامنے جس کے ترا پیکر گونجے
خواب میں بھی ترے آنگن میں وہ اژدر دیکھوں
شعبدہ ہے، کہ تقاضا یہ تری دید کا ہے
ہر بُنِ مُو میں سمائے ہوئے اخگر دیکھوں