تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے
میں رنگ رنگ ہوں لیکن سنگھار باقی ہے
Printable View
تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے
میں رنگ رنگ ہوں لیکن سنگھار باقی ہے
ابھی تو چوٹ ہے آئی گلاب سے مجھ کو
ابھی تو راہ میں اک خار زار باقی ہے
ہوائیں تھم گئیں ، گروو غبار بیٹھ گیا
اک اپنی ذات کا بس انتشار باقی ہے
تمام عمر دیا میں نے جس کو اپنا لہو
اُسی چراغ پہ اب تک نکھار باقی ہے
اداس رکھتی ہے دن بھر یہ بازگشت مجھے
صدا کی گونج میں پیہم پکار باقی ہے
جو رات ہجر کی گزری تمہارے پہلو میں
اس ایک شب کا ابھی تک خمار باقی ہے
جو گھاؤ بھر گیا اس کا نشان ہے اب تک
اس ایک زخم پہ اب بھی بہار باقی ہے
وہ یاد بھولی ہوئی داستاں سہی لیکن
وہی مزاجِ سدا سوگوار باقی ہے
رات کو کیسے سحر کر پائیں گے تیرے بغیر
چھوڑ کر مت جا ہمیں مر جائیں گے تیرے بغیر
کون لپٹے گا گلے سے پیار سے دیکھے گا کون
یاد کی باہوں سے دل بہلائیں گے تیرے بغیر