تجھ کو اپنا خیال رکھنا ہے
تُو مری کائنات ہے ہمدم
Printable View
تجھ کو اپنا خیال رکھنا ہے
تُو مری کائنات ہے ہمدم
شام ہونے کو ہے چلا بھی آ
زندگی بے ثبات ہے ہمدم
اپنی آنکھیں جلا کے میز پہ رکھ
کتنی تاریک رات ہے ہمدم
یہ الگ دید کو ترستی ہوں
چار سو تیری ذات ہے ہمدم
وہ ہے کسی کا مگر اس کی صحبتیں مجھ سے
خراج لیتی ہیں کیسا محبتیں مجھ سے
جو دے رہا ہے کہیں اور روشنی اپنی
ستم کہ اس کے بدن میں ہیں حدتیں مجھ سے
عجیب شخص ہے کم گو ہے،کم نظر بھی ہے
کہ جس کے حرفِ وفا میں ہیں شدتیں مجھ سے
کبھی کبھی کے کہے اپنے چند جملوں میں
خرید لے گیا عمروں کی مدتیں مجھ سے
اس انتظارِ مسلسل کی حد کہاں ہو گی
سوال کرتی ہی رہتی ہیں فرقتیں مجھ سے
ذہن پر اس طرح سے چھائے ہو
گاہ پیکر ہو گاہ سائے ہو