سانس لیتے ہو تم بدن سے مرے
مجھ اپنا شمار کرنا کبھی
Printable View
سانس لیتے ہو تم بدن سے مرے
مجھ اپنا شمار کرنا کبھی
موڑ اک پُر خطر بھی آتا ہے
اور رستے میں گھر بھی آتا ہے
عشق کی داستاں عجیب سی ہے
سنگ آتا ہے سر بھی آتا ہے
جانتے ہیں سو گھر سے نکلے ہیں
رہ میں رنجِ سفر بھی آتا ہے
اک ہیولہ ہے ساتھ رہتا ہے
چاہنے پر نظر بھی آتا ہے
لاکھ تنہائی کی منازل ہوں
راہ میں ہمسفر بھی آتا ہے
اتنا دشوار تو نہیں رستہ
گاہے گاہے شجر بھی آتا ہے
رات اچھی بھی لگتی ہے لیکن
نیند آنے پہ ڈر بھی آتا ہے
مرے جنوں کو ہے تجھ سے ثبات پھر ملنا
مری نظر کی حسین کائنات پھر ملنا
تجھے یہ دن کے اجالے بھی سوچتے ہوں گے
یہ شوقِ دید میں جاگے گی رات ، پھر ملنا