ہر حرفِ اعتبار لٹانے کے بعد بھی
یہ کیا ہوا ، فریبِ غم و یاس بھی رہے
Printable View
ہر حرفِ اعتبار لٹانے کے بعد بھی
یہ کیا ہوا ، فریبِ غم و یاس بھی رہے
وصل کا عالم رہا ہے ہجر کے ماروں کے بیچ
تُو نظر آتا رہا ہے رات بھر تاروں کے بیچ
راکھ ہو جاتے ہیں اپنے شوق میں اہل جنوں
پھول الفت کے کھلا کرتے ہیں انگاروں کے بیچ
کو بہ کو رسوائیاں دیتی ہیں دل کو حوصلے
منزلیں خود چل کے آ جاتی ہیں دیواروں کے پیچ
خود فریبی حد سے باہر بھی تو کچھ اچھی نہیں
’ہاں‘ دکھائی دے رہی ہے تیرے انکاروں کے بیچ
ساری دنیا ایک جانب اور تو ہے اک طرف
دیکھتے رہتے ہیں تجھ کو پیار سے ساروں کے بیچ
یوں مرا انتظار کرنا کبھی
ٹوٹ کر مجھ سے پیار کرنا کبھی
میرا باطن تو تم پہ ظاہر ہے
خود کو بھی آشکار کرنا کبھی
تم نے جو کہہ دیا صحیفہ ہے
میرا بھی اعتبار کرنا بھی
تم جہاں بھی ہو صرف میرے ہو
اعتراف ایک بار کرنا کبھی