غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا
زمینِ شعر کا افسانہ آسماں سنتا
Printable View
غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا
زمینِ شعر کا افسانہ آسماں سنتا
زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
جرس سے مژدہ منزل ہے کارواں سنتا
نہ پوچھ، کان میں کیا کیا کہا ہے ، کس کس نے
پھر ہوں تیری خبر میں کہاں کہاں سنتا
مجھے وہ روشنی خانہ یاد آتا ہے
کسی کے گھر میں ہوں دوست مہماں سنتا
نہال قد کے ہو سودے مین جب سے زرد آتش
تمہارا نام ہوں میں شاخ زعفران سنتا
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے ، سر چڑھتا ہے ، دیوانہ ہوا ہے
اس عالم ایجاد میں گردش سے فلک کے
کیا کیا نہیں ہونے کا کیا کیا نہ ہوا ہے
نالوں سے مرے کون تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
یاد آتی ہے مجھ کو تن بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے