کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں
کن قدموں سے پامال ہوا
Printable View
کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں
کن قدموں سے پامال ہوا
انھیں *غرور کہ رکھتے ہیں طاقت و کثرت
ہمیں یہ ناز بہت ہے خدا ہمارے لئے
ہم نے کھلنے نہ دیا بے سر و سامانی کو
کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو
ایک اکیلا میں چاہوں تو کیسے رہائی ہو
پہلے وہ زنجیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
کہتے تھے ہم کہ جی نہ سکیں گے ترے بغیر
یہ کیا ہوا کہ تجھ سے محبت نہیں رہی
وصالِ یار سے پہلے محبت
خود اپنی ذات کا اک راستا ہے
لوگ دیتے ہیں جسے پیار کا نام
ایک دھوکہ تھا کہ ہم بھول گئے
ہر شعر ماورائے سخن ہو کچھ اس طرح
اے دل تو لفظ لفظ میں ڈھل آپ کے لیے
کوئی مذہب نہیں ہے خوشبو کا
عام یہ مژدۂ بہار کرو
دوش پر بار شب ِ غم لیے گل کی مانند
کون سمجھے کہ محبت کی زباں ہیں ہم لوگ