اِک حرف کی کرچی کہیں سینے میں چُبھی تھی
پہروں تھا کوئی ٹوٹ کے رویا اُسے کہنا
Printable View
اِک حرف کی کرچی کہیں سینے میں چُبھی تھی
پہروں تھا کوئی ٹوٹ کے رویا اُسے کہنا
مدت ہوئی خورشید گہن سے نہیں نِکلا
ایسا کہیں تارا کوئی ٹوٹا اُسے کہنا
جاتی تھی کوئی راہ اکیلی کسی جانب
تنہا تھا سفر میں کوئی سایا اُسے کہنا
ہر زخم میں دھڑکن کی صدا گونج رہی تھی
اِک حشر کا تھا شور شرابا اُسے کہنا
اک نیند میں بس عمر گزرتی رہی اپنی
اک خواب میں گھر ہم نے بنایا اسے کہنا
مجھ کو اتار حرف میں ، جانِ غزل بنا مجھے
میری ہی بات مجھ سے کر، میرا کہا سنا مجھے
رخشِ ابد خرام کی تھمتی نہیں ہیں بجلیاں
صبحِ ازل نژاد سے کرنا ہے مشورہ مجھے
لوحِ جہاں سے پیشتر لکھا تھا کیا نصیب میں
کیسی تھی میری زندگی ، کچھ تو چلے پتہ مجھے
کیسے ہوں خواب آنکھ میں ، کیسا خیال دل میں ہو
خود ہی ہر ایک بات کا کرنا تھا فیصلہ مجھے
چھوٹے سے اک سوال میں دن ہی گزر گیا مرا
تُو ہے کہ اب نہیں ہے تُو بس یہ ذرا بتا مجھے