روز گرتے ہیں ترے ہاتھ سے گھر کے برتن
زندگی جینے کا سیکھا نہ قرینہ تُو نے
Printable View
روز گرتے ہیں ترے ہاتھ سے گھر کے برتن
زندگی جینے کا سیکھا نہ قرینہ تُو نے
ٹوٹا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
تڑپا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
کہتا نہیں کسی سے مگر جانتے ہیں ہم
رویا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
پھیلا کے اپنے گرد تصاویر اور خطوط
بکھرا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
راتوں کی سائیں سائیں میں تنہائیوں کے بیچ
جاگا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
دہلیز پر پرانے زمانوں کا منتظر
بیٹھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
اٹھتے قدم ہماری طرف روکتے ہوئے
اُلجھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
ہر زخم کا علاج مسیحائی میں نہیں
سمجھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
اِک دِل میں تھا اِک سامنے دریا اُسے کہنا
ممکن تھا کہاں پار اُترنا اسے کہنا
ہجراں کے سمندر میں ہیولا تھا کسی کا
اِمکاں کے بھنور سے کوئی اُبھرا اُسے کہنا