دیدنی تھی سادگی ان کی جو رکھتے تھے کبھی
اے وفا نا آشنا امید تیرے شہر سے
Printable View
دیدنی تھی سادگی ان کی جو رکھتے تھے کبھی
اے وفا نا آشنا امید تیرے شہر سے
تیرے دیوانوں کے حق میں زہرِ قاتل ہو گئی
نا امیدی سے سوا امید تیرے شہر سے
پابجولاں دل گرفتہ پھر رہے ہیں کُو بکو
ہم جو رکھتے تھے سوا امید تیرے شہر سے
تُو تو بے پرواہی تھا اب لوگ بھی پتھر ہوئے
یا ہمیں تجھ سے تھی یا امید تیرے شہر سے
راستے کیا کیا چمک جاتے ہیں اے جانِ فراز
جب بھی ہوتی ہے ذرا امید تیرے شہر سے
کسی کشِش کے کسی سلسلے کا ہونا تھا
ہمیں بھی آخرش اِک دائرے کا ہونا تھا
ابھی سے اچھا ہوا رات سو گئی ورنہ
کبھی تو ختم سفر رت جگے کا ہونا تھا
برہنہ تن بڑی گزری تھی زندگی اپنی
لباس ہم کو ہی اِک دوسرے کا ہونا تھا
ہم اپنا دیدۂ بینا پہن کے نِکلے تھے
سڑک کے بیچ کسی حادثے کا ہونا تھا
ہمارے پاؤں سے لپٹی ہوئی قیامت تھی
قدم قدم پہ کسی زلزلے کا ہونا تھا