جدا سہی مری منزل بچھڑ نہیں سکتا
میں کس طرح تجھے اوروں کا ہمسفر دیکھوں
Printable View
جدا سہی مری منزل بچھڑ نہیں سکتا
میں کس طرح تجھے اوروں کا ہمسفر دیکھوں
وہ لب فراز اگر کر سکیں مسیحائی
بقولِ درد میں سو سو طرح سے مر دیکھوں
منتظر کب سے تحیرّ ہے تری تقریر کا
بات کر،تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
کیسے پایا تھا تجھے،پھر کس طرح کھویا تجھے
مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
جانے کس عالم میں تو بچھڑا کہ ہے تیرے بغیر
آج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا
عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ
جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے شِیر کا
جس کو بھی چاہا اُسے شدت سے چاہا ہے فراز
سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا
اہلِ غم جاتے ہیں ناامید تیرے شہر سے
جب نہیں تجھ سے تو کیا امید تیرے شہر سے