لمحے وفورِ شوق کے ایسے نہ آئے تھے
یوں چپ ہیں ترے پاس ہی جیسے نہ آئے تھے
Printable View
لمحے وفورِ شوق کے ایسے نہ آئے تھے
یوں چپ ہیں ترے پاس ہی جیسے نہ آئے تھے
ساقی شکستِ جام سے چہروں پہ دیکھنا
وہ رنگ بھی کہ شعلۂ مے سے نہ آئے تھے
دل پر لگی خراش تو چہرے شفق ہوئے
اب تک تو زخم راس کچھ ایسے نہ آئے تھے
پہلے بھی روئے ہیں مگر اب کے وہ کرب ہے
آنسو کبھی بھی آنکھوں میں جیسے نہ آئے تھے
جب صبح ہو چکی ہے تو کیا سوچنا فراز
وہ رات کیوں نہ آئے تھے کیسے نہ آئے تھے
اسی خیال میں تاروں کو رات بھر دیکھوں
کہ تجھ کو صبحِ قیامت سے پیشتر دیکھوں
اِس اک چراغ کی لَو چبھ رہی ہے آنکھوں میں
تمام شہر ہو روشن تو اپنا گھر دیکھوں
مجھے خود اپنی طبیعت پہ اعتماد نہیں
خدا کرے کہ تجھے اب نہ عمر بھر دیکھوں
صدائے غولِ بیاباں نہ ہو یہ آوازہ
مرا وجود ہے پتّھر جو لوٹ کر دیکھوں
نظر عذاب ہے پاؤں میں ہو اگر زنجیر
فضا کے رنگ کو دیکھوں کہ بال و پر دیکھوں