کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے ، کیا کہیں
آنکھیں تو دشمنوں کی بھی پُر نم ہیں دوستو
Printable View
کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے ، کیا کہیں
آنکھیں تو دشمنوں کی بھی پُر نم ہیں دوستو
اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
اپنی تلاش میں تو ہمیں ہم ہیں دوستو
کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو
اِس شہرِ آرزو سے بھی باہر نکل چلو
اب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں دوستو
سب کچھ سہی فراز پر اتنا ضرور ہے
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں دوستو
تو کہاں تھا زندگی کے روز و شب آنکھوں میں تھے
آج یاد آیا کہ آنسو بے سبب آنکھوں میں تھے
رات بھر تاروں کی صورت جاگتے رہنا ہمیں
صبح دم کہنا کہ کیا کیا خوابِ شب آنکھوں میں تھے
تیری یادوں کی مہک ہر درد کو بِسرا گئی
ورنہ ترے دکھ بھی اے شہرِ طرب آنکھوں میں تھے
اب تلک جن کی جدائی کا قَلق جی کو نہ تھا
آج تُو بچھڑا تو وہ بھی سب کے سب آنکھوں میں تھے
اب تو ضبطِ غم نے پتھر کر دیا ورنہ فراز
دیکھتا کوئی کہ دل کے زخم جب آنکھوں میں تھے