سوچ لو اُس بزم سے اٹھنے سے پہلے سوچ لو
یہ نہ ہو پھر دل کے ہاتھوں لوٹ کر آنا پڑے
Printable View
سوچ لو اُس بزم سے اٹھنے سے پہلے سوچ لو
یہ نہ ہو پھر دل کے ہاتھوں لوٹ کر آنا پڑے
لے چلے ہیں حضرت ناصح مجھے جس راہ سے
لطف جب آئے اُدھر بھی کوئے جانانہ پڑے
غم ہی ایسا تھا کہ دل شَق ہو گیا ورنہ فرازؔ
کیسے کیسے حادثے ہنس ہنس کے سہہ جانا پڑے
اب فرصت ہے نہ احساس ہے غم سے اپنے
ورنہ ہم روز ہی ملتے تھے صنم سے اپنے
دل نہ مانا کہ کسی اور کے راستے پہ چلیں
لاکھ گمراہ ہوئے نقشِ قدم سے اپنے
جی چکے ہم جو یہی شوق کی رسوائی ہے
تم سے بیگانے ہوئے جاتے ہیں ہم سے اپنے
ہم نہیں پھر بھی تو آباد ہے محفل اُن کی
ہم سمجھتے تھے کہ رونق ہے تو دم سے اپنے
میرے دامن کے مقدر میں ہے خالی رہنا
آپ شرمندہ نہ ہوں دستِ کرم سے اپنے
رہ چکے مرگِ تمنا پہ بھی اک عمر فراز
اب جو زندہ ہیں تو شعروں کے بھرم سے اپنے
تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
اب ہو چلا یقیں کہ بُرے ہم ہیں دوستو