جس کے طفیل مہر بلب ہم رہے فرازؔؔ
اس کے قصیدہ خواں ہیں سبھی اہلِ انجمن
Printable View
جس کے طفیل مہر بلب ہم رہے فرازؔؔ
اس کے قصیدہ خواں ہیں سبھی اہلِ انجمن
کیسی طلب اور کیا اندازے مشکل ہے تقدیر بنے
دل پر جس کا ہاتھ بھی رکھیو آخر وہ شمشیر بنے
غم کے رشتے بھی نازک تھے تم آئے اور ٹوٹ گئے
دل کا وحشی اب کیا سنبھلے اب کیا شے زنجیر بنے
اپنا لہو تیری رعنائی تاریکی اس دنیا کی
میں نے کیا کیا رنگ چنے ہیں دیکھوں کیا تصویر بنے
اپنا یہ عالم ہے خود سے بھی اپنے زخم چھپاتے ہیں
لوگوں کو یہ فکر کہ کوئی موضوع تشہیر بنے
تم نے فرازؔؔ اس عشق میں سب کچھ کھو کر بھی کیا پایا ہے
وہ بھی تو ناکامِ وفا تھے جو غالبؔ اور میرؔ بنے
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
رسوائی سے ڈرنے والو ، بات تمہی پھیلاؤ گے
اس کا کیا ہے تم نہ سہیتو چاہنے والے اور بہت
ترکِ محبت کرنے والو !تم تنہا رہ جاؤ گے
ہجر کے ماروں کی خوش فہمی!جاگ رہے ہیں پہروں سے
جیسے یوں شب کٹ جائے گی جیسے تم آ جاؤ گے
زخمِ تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے
اُس کا بھُلانا سہل نہیں ہے خود کو بھی یاد آؤ گے