پتھر غموں کے اتنے تھے اس راہِ زیست میں
جھنجلا کے آدھی راہ سے ہم خود پلٹ گئے
Printable View
پتھر غموں کے اتنے تھے اس راہِ زیست میں
جھنجلا کے آدھی راہ سے ہم خود پلٹ گئے
ہر آرزو جو تم سے تھی وابستہ ، جل گئی
اس راکھ سے ہی یادوں کے سائے لپٹ گئے
کب سے پتہ تھا راز کہ رونا ہے ایک دن
کچھ دن کسی کے ساتھ ، چلو اچھے کٹ گئے
اک عالمِ مستی ہے ، یہ عالمِ مئے نوشی
تھوڑی سی سمجھ باقی ، تھوڑی سی ہے بے ہوشی
خوشیوں کو بڑھاتی ہے اور غم کو مٹاتی ہے
میکش کا تو ہوتا ہے ، انجام بلا نوشی
وہ آنکھ سے کہتے ہیں ، ہم دل سے سمجھتے ہیں
نظروں سے جو ہوں باتیں ، الفاظ ہیں خاموشی
جو لوگ نہیں پیتے ، جی کر بھی نہیں جیتے
پر سب کے مقدر میں ہوتی نہیں مدہوشی
گو راز کی فطرت میں ہیں نقص ہزاروں پر
بس ایک مگر کم ہے ، احسان فراموشی
خدایا ، کس لیے دنیا بنی ہے
ترے دوزخ میں شاید کچھ کمی ہے
زمانہ اس پہ دیکھو ہنس رہا ہے
وہ جس نے دوستی میں جان دی ہے