یہاں آ کر گزر جانا ہے سب کو
کوئی منزل نہیں ، بس راستہ ہے
Printable View
یہاں آ کر گزر جانا ہے سب کو
کوئی منزل نہیں ، بس راستہ ہے
جھکائے سر کھڑا ہے راز لیکن
اسے معلوم ہے وہ بے خطا ہے
خدا نے دیکھ کے تابِ تجسسِ انساں
نظر پہ حد سی لگا دی ہے آسماں کیا ہے
گلا کے چھوڑے گا ہر شئے کو وقت کا تیزاب
سوائے نورِ خدا اور جاوداں کیا ہے
بس ایک غیب کی تلوار یہ خدائی ہے
پھر اس کے سامنے فریاد کیا ، فغاں کیا ہے
غمِ جہاں کا فسانہ بہت طویل ہے دوست
ہماری ایک شبِ غم کی داستاں کیا ہے
بچا ہی کیا ہے تیرے پاس ، بِک گیا سب کچھ
بڑھا لے راز اب خالی ہے یہ دکاں کیا ہے
دل کیا جلا ، کہ داغ وفاؤں کے گھٹ گئے
موسم دھواں دھواں ہوئے آ کر پلٹ گئے
کس زاویے سے آئے میری زندگی میں تم
جتنے تھے میرے سائے وہ سب مجھ سے کٹ گئے
چپ چاپ زندگی بھی کھڑی دیکھتی رہی
ٹکڑے جگر کے سب میرے رشتوں میں بٹ گئے