بلا سے جاں کا زیاں ہو اس اعتماد کی خیر
وفا کرے نہ کرے پھر بھی یار اپنا ہے
Printable View
بلا سے جاں کا زیاں ہو اس اعتماد کی خیر
وفا کرے نہ کرے پھر بھی یار اپنا ہے
فرازؔؔ راحتِ جاں بھی وہی ہے کیا کیجیے
وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
اے دل ترے آشوب نے پھر حشر جگایا
بے درد ابھی آنکھ بھی مشکل سے لگی تھی
خلقت کا عجب حال تھا اس کوئے ستم میں
سائے کی طرح دامنِ قاتل سے لگی تھی
اترا بھی تو کب درد کا چڑھتا ہوا دریا
جب کشتیِ جاں موت کے ساحل سے لگی تھی
کسی کے تذکرے بستی میں کو بکو جو ہوئے
ہمیں خموش تھے موضوعِ گفتگو جو ہوئے
نہ دل کا درد ہی کم ہے نہ آنکھ ہی نم ہے
نہ جانے کون سے ارماں تھے وہ لہو جو ہوئے
نظر اٹھائی تو گم گشتۂ تحیر تھے
ہم آئنے کی طرح تیرے رو برو جو ہوئے
ہمیں ہیں وعدۂ فردا پہ ٹالنے والے
ہمیں نے بات بدل دی بہانہ جُو جو ہوئے