خود کو سنتے ہیں اس طرح جیسے
وقت کی آخری صدا ہیں ہم
Printable View
خود کو سنتے ہیں اس طرح جیسے
وقت کی آخری صدا ہیں ہم
راکھ ہیں ہم اگر یہ آگ بجھی
جز غمِ دوست اور کیا ہیں ہم
اس طرح سے ہمیں رقیب ملے
جیسے مدت کے آشنا ہیں ہم
ہم غمِ کارواں میں بیٹھے تھے
لوگ سمجھے شکستہ پا ہیں ہم
تجھ سے مل کر بھی کچھ خفا ہیں ہم
بے مروّت نہیں تو کیا ہیں ہم
دنیا سے بچھڑتے کہ فراز اُن کو بھلاتے
ہر حال میں اپنے لیے پیماں شکنی تھی
یہ جاں جو کڑی دھوپ میں جلتی رہی برسوں
اوروں کے لیے سایۂ دیوار بنی تھی
اب صورتِ دیوار ہیں چپ چاپ کہ تجھ سے
کچھ اور تعلق نہ سہی ہم سخنی تھی
شب سلگتی ہے دو پہر کی طرح
چاند، سورج سے جل بجھا جیسے
مدتوں بعد بھی یہ عالم ہے
آج ہی تُو جدا ہُوا جیسے