کچھ بھی ہو گلستاں میں مگر کنجِ چمن سے
ہیں دور بہاروں کے قدم اب کے برس بھی
Printable View
کچھ بھی ہو گلستاں میں مگر کنجِ چمن سے
ہیں دور بہاروں کے قدم اب کے برس بھی
لب و تشنہ و نومید ہیں ہم اب کے برس بھی
اے ٹھہرے ہوئے ابرِ کرم اب کے برس بھی
اس شہرِ تمنا سے فراز آئے ہی کیوں تھے
یہ حال اگر تھا تو ٹھہرتے کوئی دن اور
گو ترکِ تعلق تھا مگر جاں پہ بنی تھی
مرتے جو تجھے یاد نہ کرتے کوئی دن اور
راحت تھی بہت رنج میں ہم غم طلبوں کو
تم اور بگڑتے تو سنورتے کوئی دن اور
ہم نے تجھے دیکھا تو کسی کو بھی نہ دیکھا
اے کاش ترے بعد گزرتے کوئی دن اور
راتوں کو تری یادوں کے خورشید اُبھرتے
آنکھوں میں ستارے سے اترتے کوئی دن اور
اچھا تھا اگر زخم نہ بھرتے کوئی دن اور
اُس کوئے ملامت میں گزرتے کوئی دن اور
اب نہ وہ میں،نہ وہ تُو ہے،نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمنّا کے سرابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں