لَوٹی ہے عقل سوئے جنوں اس امنگ سے
جیسے گناہ گار شوالے میں آ گرا
Printable View
لَوٹی ہے عقل سوئے جنوں اس امنگ سے
جیسے گناہ گار شوالے میں آ گرا
ایسے گرا ہے آ کے خرابات میں عدم
جیسے چکور چاند کے ہالے میں آ گرا
جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
پھول دامن میں چند رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا
ہر منظرِ حسیں پہ دھندلکا سا چھا گیا
دل میں مکیں تھا کوئی تو جلتے رہے چراغ
جاتے ہوئے وہ شوخ انہیں بھی بجھا گیا