ہم کو اُس نام نے مارا کہ جہاں بھی جائیں
خلقتِ شہر نے طوفان اٹھائے رکھنا
Printable View
ہم کو اُس نام نے مارا کہ جہاں بھی جائیں
خلقتِ شہر نے طوفان اٹھائے رکھنا
دوست پرسش پہ مصر اور ہمارا شیوہ
اپنے احوال کو خود سے بھی چھپائے رکھنا
کون آتا ہے مگر آس لگائے رکھنا
عمر بھر درد کی شمعوں کو جلائے رکھنا
مقتل میں نظر آئیں گے پا بستۂ زنجیر
اہلِ نظر و اہلِ قلم ، اب کے برس بھی
پہلے کی طرح ہوں گے تہی جامِ سفالیں
چھلکے گا ہر اک ساغرِ جم اب کے برس بھی
ہو جائے گا ہر زخمِ کہن پھر سے نمایاں
روئے گا لہو دیدۂ نم اب کے برس بھی
لہرائیں گے ہونٹوں پہ دکھاوے کے تبسم
ہو گا یہ نظارہ کوئی دم اب کے برس بھی
پہلے بھی قیامت تھی ستم کاریِ ایّام
ہیں کشتۂ غم،کشتۂ غم اب کے برس بھی
اے دل ز َدَگان ! خیر مناؤ کہ ہیں نازاں
پندارِ خدائی پہ صنم ، اب کے برس بھی
اے شیخِ کرم ! دیکھ کہ با وصفِ چراغاں
تیرہ ہیں در و بامِ حرم اب کے برس بھی