بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے
Printable View
بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
وہ فصلِ گل ، وہ لبِ جوئبار یاد کرو
وہ اختلاط ، وہ قول و قرار یاد کرو
وہ انگ انگ میں طغیانیاں محبت کی
وہ رنگ رنگ کے نقش و نگار یاد کرو
وہ نکہتوں کے جنوں خیز و شعلہ بار بھنور
وہ بلبلوں کی نشیلی پکار یاد کرو
وہ ہمکلامی ء بے اختیار و سادہ روش
وہ ہم نشینی ، دیوانہ وار یاد کرو
خیالِ جنتِ فردا کو آگ میں جھونکو
عدم حلاوتِ آغوشِ یاد یاد کرو
یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے
ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے
واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے
وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے