اک عجب شور مچاتی ہوئی تنہائی کے ساتھ
خود میں دہرائے سمندر کے اشارے ہم نے
Printable View
اک عجب شور مچاتی ہوئی تنہائی کے ساتھ
خود میں دہرائے سمندر کے اشارے ہم نے
بندہ وہ خُدا نہیں تھا لیکن
ہر جسم میں جاں بدل گیا ہے
میرے اور میرے اس خدا کے بیچ
ہے اگر لفظ تو 'محبت' ہے
وصال کا ہو کہ اس کے فراق کا موسم
وہ لذتیں تھیں کہ اندر سے ٹوٹتا تھا میں
اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبت ہے بہت
اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے
بے سبب غم میں سلگنا مری عادت ہی سہی
ساز خاموش ہے کیوں شعلہ نوا کیوں چپ ہے
ایک نمرود کی خدائی میں
زندگی تھی عجب فقیر کے ساتھ
آنے والا ہے اب حساب کا دن
ہونے والا ہے کچھ شریر کے ساتھ
بُنیاد بھی میری درو دیوار بھی میرے
تعمیر ہوا میں کہ یہ تعمیر ہوئے سب
وہ روشنی کہ آنکھ اُٹھائی نہیں گئی
کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا