فرصت ملے تو اپنا گریباں بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ
Printable View
فرصت ملے تو اپنا گریباں بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ
فرصت ملے تو اپنا گریباں بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ
"اپنی اپنی آگ"
دوزخ کے متعلق تذکرہ غوثیہ کی ایک کہانی مجھے اپیل کرتی ہے. پہاڑ کی کھوہ میں ایک فقیر رہتا تھا جو دن رات عبادت میں مصروف رہتا تھا. اس کے ساتھ ایک بالکا بھی تھا. فقیر حقہ پینے کا شوقین تھا، اس لیے اس نے اپنے بالکے کو حکم دے رکھا تھا کہ ہر وقت آگ کا انتظام رکھے.ایک روز آدھی رات کے وقت فقیر نے بالکے کو حکم دیا کہ چلم بھر دے. بالکے نے دیکھا کہ بارش کی وجہ سے آگ بجھ چکی تھی. اتفاق سے ماچس بھی ختم ہو چکی تھی. بالکا گھبرا گیا کہ اب کیا کرے.
اس نے فقیر سے کہا: عالی جاہ! آگ تو بجھ چکی ہے، ماچس ہے نہیں کہ سلگا لوں. فرمائیے اب کیا کروں؟
فقیر جلال میں بولا: ہم تو چلم پئیں گے، چاہے آگ جہنم سے لاؤ.
بالکا چل پڑا. چلتے چلتے جہنم جا پہنچا. دیکھا کہ جہنم کے صدر دروازے پر ایک چوکیدار بیٹھا اونگھ رہا ہے.
بالکے نے اسے جھنجھوڑا اور پوچھا: کیا یہ جہنم کا دروازہ ہے؟
چوکیدار بولا: ہاں ، یہ جہنم کا دروازہ ہے.
بالکے نے کہا: لیکن یہاں آگ تو دکھائی نہیں دیتی؟
چوکیدار نے کہا : ہر جہنمی اپنی آگ اپنے ساتھ لاتا ہے.
ممتاز مفتی کی تصنیف تلاش سے
Zameer hamary andar uss awaz ka naam hai jo humen ehsaas dilata hai ke humen koi dekh raha hai
Insan ki zaroori hajaten uss ki dunia ki talab mein dakhil nahi hein
khawab eik dilfareb nadi ka kinara hota hai jo khoobsoorat to hota hia magar iske kinaray beth ker zindagi nahi guzari ja sakti