وہ مے کش تیری آنکھوں کی حکایت سن کے آیا ہے
جسے ہر وقت پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
Printable View
وہ مے کش تیری آنکھوں کی حکایت سن کے آیا ہے
جسے ہر وقت پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
اداسی بھی عدم احساسِ غم کی ایک دولت ہے
بسا اوقات ویرانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
اس کی پائل اگر چھنک جائے
گردشِ آسماں ٹھٹھک جائے
اس کے ہنسنے کی کیفیت ، توبہ!
جیسے بجلی چمک چمک جائے
اس کے سینے کا زیرو بم ، توبہ!
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے
لے اگر جھوم کر وہ انگڑائی
زندگی دار پر اٹک جائے
ایسے بھر پور ہے بدن اس کا
جیسے ساون کا آم پک جائے
ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے