جو بھی کرنا ہے کر گزر اے دل
سوچنا مرگِ شادمانی ہے
Printable View
جو بھی کرنا ہے کر گزر اے دل
سوچنا مرگِ شادمانی ہے
ہم نے خود مسکرا کے دیکھا ہے
مسکراہٹ بھی نوحہ خوانی ہے
زندگی وہ ! جو ان کے ساتھ گئی
یہ تو میری حیاتِ ثانی ہے
محبت کو کہاں فکرِ زیان و سود رہتا ہے
یہ دروازہ ہمارے شہر میں مسدود رہتا ہے
خرد بھی زندگی کی کہکشاں کا اک ستارہ ہے
مگر یہ وہ ستارہ ہے جو نا مسعود ہوتا ہے
مرے احساس کی تخلیق ہے ، جو کچھ بھی ہے ساقی!
جسے محسوس کرتا ہوں ، وہی موجود ہوتا ہے
شام ہوتی ہے دیا جلتا ہے میخانے کا
کون سا باب ہے یہ زیست کے افسانے کا
عشق کے کام منظم بھی ہیں ، ہنگامی بھی
شمع اک دوسرا کردار ہے افسانے کا
بن گیا فتنۂ محشر کا اثاثہ آخر
غلغلہ میری جوانی کے بہک جانے کا
زندگی راہ نوردی سے عبارت ہے عدم
موت مفہوم ہے رستے سے گزر جانے کا