سوچ کی چنگاری بھڑکا کر کیا نادانی کی
اس لمحے سے لے کر اب تک آگ ہیں چاروں اور
Printable View
سوچ کی چنگاری بھڑکا کر کیا نادانی کی
اس لمحے سے لے کر اب تک آگ ہیں چاروں اور
چاک گریباں پھرنا کس کو خوش آتا ہے فرازؔؔ
ہم بھی اس کو بھول نہ جائیں دل پہ اگر ہو زور
پھر اسی راہگزر پر شاید
ہم کبھی مل سکیں مگر شاید
جن کے ہم منتظر رہے ان کو
مل گئے اور ہمسفر شاید
جان پہچان سے بھی کیا ہو گا
پھر بھی اے دوست غور کر شاید
اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
چمک اٹھے تری نظر شاید
زندگی بھر لہو رلائے گی
یادِ یارانِ بے خبر شاید
جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فرازؔؔ
پھر بھی تو انتظار کر شاید
اب وہ جھونکے کہاں صبا جیسے
آگ ہے شہر کی ہوا جیسے
شب سلگتی ہے دو پہر کی طرح
چاند، سورج سے جل بجھا جیسے