بے سر و ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
اِس سے پہلے شہر کے لُٹنے کا آوازہ نہ تھا
Printable View
بے سر و ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
اِس سے پہلے شہر کے لُٹنے کا آوازہ نہ تھا
ظرفِ دل دیکھا تو آنکھیں کرب سے پتھرا گئیں
خون رونے کی تمنّا کا یہ خمیازہ نہ تھا
آ مرے پہلو میں آ اے رونقِ بزمِ خیال
لذتِ رخسار و لب کا اب تک اندازہ نہ تھا
ہم نے دیکھا ہے خزاں میں بھی تری آمد کے بعد
کونسا گل تھا کہ گلشن میں تر و تازہ نہ تھا
ہم قصیدہ خواں نہیں اُس حسن کے لیکن فرازؔؔ
اتنا کہتے ہیں رہینِ سُرمہ و غازہ نہ تھا
تپتے صحراؤں پہ گرجا سرِ دریا برسا
تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا
کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی ایک بوند
دل میں اک لہر اٹھی آنکھ سے دریا برسا
کوئی غرقاب کوئی مائ بے آب ہُوا
ابرِ بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا
چڑھتے دریاؤں میں طوفان اٹھانے والے
چند بوندیں ہی سرِ دامنِ صحرا برسا
طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ اٹھا ، یا برسا