یہی تو آشنا بنتے ہیں آخر
کوئی نا آشنا دیکھا نہ جائے
Printable View
یہی تو آشنا بنتے ہیں آخر
کوئی نا آشنا دیکھا نہ جائے
فرازؔؔ اپنے سوا ہے کون تیرا
تجھے تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں
آنکھوں کی سرخ لہر ہے موجِ سپردگی
یہ کیا ضرور ہے کہ اب انگڑائیاں بھی ہوں
ہر حُسنِ سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں
دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے
بات اس کی ہو تو پھر سخن آرائیاں بھی ہوں
پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فرازؔؔ
دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں
جب تری یاد کے جگنو چمکے
دیر تک آنکھ میں آنسو چمکے
سخت تاریک ہے دل کی دنیا
ایسے عالم میں اگر تُو چمکے
ہم نے دیکھا سرِ بازارِ وفا
کبھی موتی کبھی آنسو چمکے