جب آئے جی میں تری بزم میں چلا آؤں
یہ اِذنِ خاص بھی،ماجد کو، جانِ جاں دے دے
Printable View
جب آئے جی میں تری بزم میں چلا آؤں
یہ اِذنِ خاص بھی،ماجد کو، جانِ جاں دے دے
جیون رُت کی سختی بے موسم لگتی ہے
کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہے
سوچیں خلق کے حق میں اچّھا سوچنے والے
خلق اُنہی سے آخر کیوں برہم لگتی ہے
ان سے توقّع داد کی ہم کیا رکھیں جن کے
بات لبوں کے بیچ سے پھوٹی سم لگتی ہے
صبحِ سفر یادوں میں اُترتی ہے یوں جیسے
رفتہ رفتہ رات کی چادر نم لگتی ہے
بات فقط اک لمبی دیر گزرنے کی ہے
جگہ جگہ پر کیا کیا کھوپڑی، خم لگتی ہے
بگولہ گھیر کر ہر ذِی طلب کو
ثمر تک نارسائی دے رہا ہے
بَیری رات کے آخر میں جو جا کے بہم ہو
آنکھ کنارے اٹکی وہ شبنم لگتی ہے
کچھ تو اندھیرا بھی خاصا گمبھیر ہوا ہے
کچھ ماجدؔ لَو دیپ کی بھی مدّھم لگتی ہے
خواب میں آئے بہ دستِ نامہ بر آتی نہیں
شہرِ خوباں سے کوئی اچّھی خبر آتی نہیں
چہچہاتی ہیں تمنّاؤں کی چڑیاں چار سُو
شب بھی کچھ گہری نہیں لیکن سحر آتی نہیں
راہِ فرش و عرش جب ہوتی ہے قدموں کے تلے
زندگی میں وہ گھڑی بارِ دگر آتی نہیں
خاک اچھال بھی دے تو دُور خلا میں ، تنبو تانیں گے
شاخِ شجر سے ٹوٹ گریں گے ،ہار نہ لیکن مانیں گے
ہم درویش ہیں شاہ نہیں ہیں ، حرص زدہ گمرہ نہیں
نوکِ زبان پر بھی وہی ہوگا، جو کچھ جی میں ٹھانیں گے
دھُوپ کے تِیر ہوں یا، صحرائی ریت کی قاتل کنکریاں
جیتے جی جو تن پر برسا اُسے پھُہار ہی جانیں گے
دیکھ کر لپکے جو ہونٹوں پر تبسّم کے گلاب
کوئی تتلی اب سرِ شاخِ نظر آتی نہیں
دیکھ چکے ہم سا دہ مزاجی آدم کی ، لیکن اب تو
اوّل دن سے جو بھی ملا شیطان اُسے پہچانیں گے
خون میں برپا اِک محشر سا ہر پل لگتا ہے
پُوری عمر کی دُوری پر آتا کل لگتا ہے
سارا رنگ اور رس ہے اُس کی قربت سے ورنہ
دل ویرانہ لگتا ہے دل جنگل لگتا ہے
آنکھ میں شب کی اوٹ میں کھلتی کلیوں کی سی حیا
اُس کے رُخ پر لپٹا چاند کا آنچل لگتا ہے
اپنے اِک اِک دن کا سورج خون آشام لگے
چہرہ اپنے ہر اخبار کا مقتل لگتا ہے
نشۂ جُہل نے اپنے یہاں یُوں سب کو سیر کیا
اپنے عقیدے میں ہر شخص ہی پاگل لگتا ہے
لب پہ رکا ہے آ کر جانے کون سا حرفِ گراں
ماجِد ہاتھ میں اپنا قلم تک بوجھل لگتا ہے
ہونٹوں پر سے پل پل صحرا کی سی آنچ اُٹھے
آنکھ کا آنگن اشکِ رواں سے جل تھل لگتا ہے
خَیر کے چرچے فراواں اور زیادہ شر یہاں
آشتی باہر نمایاں اور بگاڑ اندر یہاں
جس نے بھی چاہا اُٹھائے رتبۂ نادار کو
کیا سے کیا برسا کِیے اُس شخص پر پتّھر یہاں
سر گرانی جن سے ہو وہ آنکھ سے ہٹتے نہیں
جی کو جو اچّھے لگیں ٹھہریں نہ وہ منظر یہاں
دیکھتے ہیں چونک کر سارے خدا اُن کی طرف
فائدے میں ہیں جو ہیں اعلانیہ، آذر یہاں
کاش ایسا ہو کہ پاس اُس کے خبر ہو خَیر کی
جب بھی آئے کاٹتا ہے ہونٹ، نامہ بر یہاں
اور ہی انداز سے دمکے گی اب اردو یہاں
اس سے وابستہ رہے گر خاورؔ و یاورؔ یہاں
محض گرد و دُود ہی کیا اور بھی اسباب ہیں
سانس تک لینا بھی ماجدؔ ہو چلا دُوبھر یہاں
دینے لگا ہے یہ بھی تاثر کمان کا
کیا کیا سلوک ہم سے نہیں آسمان کا
دریا میں زورِ آب کا عالم تھا وہ کہ تھا
اِک جیسا جبر موج کا اور بادبان کا
اُس کو کہ جس کے پہلوئے اَیواں میں داغ تھا
کیا کیا قلق نہ تھا مرے کچّے مکان کا
اپنے یہاں وہ کون سا ایسا ہے رہنما
ٹھہرا ہو جس کا ذِکر نہ چھالا زباں کا
آخر کو اُس کا جس کے نوالے تھے مِلکِ غیر
رشتہ نہ برقرار رہا جسم و جان کا
چاہے سے راہ سے نہ ہٹے جو نہ کھُر سکے
ماجدؔ ہے سامنا ہمیں ایسی چٹان کا
دن علالت کے ہیں، اور ماجِد ہمیں، اپنا جینا کیا سے کیا لگنے لگا
آج کل کے درمیاں کا فاصلہ عمر بھر کا فاصلہ لگنے لگا
گھِر گیا جب تُندیِ گرداب میں، صلح کُل لگتا تھا کیا مارِ سیاہ
پر کنارے آ لگا جب خَیر سے، پیش و پس اپنے، خدا لگنے لگا
کیا اِسے ہم وقت کی سازش کہیں یا اِسے کوتاہئِ قسمت کہیں
وہ کہ جس کا ہم مداوا کر چکے، روگ وہ، پھر سے ہرا لگنے لگا