اس کی شا ن عجیب کا منظر دیکھنے والا ہے
اک ایسا خو رشید کہ جس نے رات نہیں دیکھی
Printable View
اس کی شا ن عجیب کا منظر دیکھنے والا ہے
اک ایسا خو رشید کہ جس نے رات نہیں دیکھی
ان دنوں روح کا عالم ہے عجب
جیسے جو حسن ہے میرا ہے وہ سب
جیسے اک خواب میں نکلا ہوا دن
جیسے اک وصل میں جاگی ہوئی شب
خیال و خواب میں پرچھائیاں سی ناچتی ہیں
اب اس طرح تو مری روح میں سماؤ نہیں
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے
لکھا تھا کبھی یہ شعر تم نے
اب دو سرا شعر کب لکھو گے
تو ہے وہ رنگ کہ آنکھوں سے نہ اوجھل ہو گا
میں ہوں وہ خواب کہ گزروں گا سحر ہو نے تک
میں نہ جاؤں جو وہاں تو مجھ کو
میری تنہائی اٹھا کر لے جائے
چاہا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ہیں آنکھوں میں
اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں ہوں *
ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے