مجھے شرابِ طہور کہہ کر وہ زہرِ قاتل پلا رہے ہیں
میں کیا کہوں کن مروتوں نے مری زباں کو جکڑ لیا ہے
Printable View
مجھے شرابِ طہور کہہ کر وہ زہرِ قاتل پلا رہے ہیں
میں کیا کہوں کن مروتوں نے مری زباں کو جکڑ لیا ہے
مجھے سخن ور نہ کوئی کہنا کہ میں تو تاریخ لکھ رہا ہوں
نہ یہ غزل ہے نہ شاعری ہے یہ آج کے دن کا ماجرا ہے
مرے رفیقوں کی پھول سی وہ نصیحتیں سب ہیں یاد مجھ کو
مگر یہ میرا قلم ہے آسی، کہ لفظ کانٹے اگا رہا ہے
ربابِ دل کے نغمہ ہائے بوالعجب چلے گئے
جو آ گئے تھے شہر میں، وہ بے ادب چلے گئے
میں اپنی دھن میں گائے جا رہا تھا نغمہ ہائے جاں
مجھے نہیں کوئی خبر کہ لوگ کب چلے گئے
سیاہ رات رہ گئی ہے روشنی کے شہر میں
دکھا کے چاند تارے اپنی تاب و تب چلے گئے
زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو
تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب، چلے گئے
وہ خود رہِ وفا میں چند گام بھی نہ چل سکے
ہمیں مگر دکھا کے راستے عجب چلے گئے
وہ کج کلہ جو کبھی سنگ بار گزرا تھا
کل اس گلی سے وہی سوگوار گزرا تھا
کوئی چراغ جلا تھا نہ کوئی در وا تھا
سنا ہے رات گئے شہریار گزرا تھا