چاندنی میں آتی ہے کس کو ڈھونڈے خوشبو
ساحلوں کے پھولوں کو کب سے رو گئے دریا
Printable View
چاندنی میں آتی ہے کس کو ڈھونڈے خوشبو
ساحلوں کے پھولوں کو کب سے رو گئے دریا
بجھ گئی ہیں قندیلیں خواب ہو گئے چہرے
آنکھ کے جزیروں کو پھر ڈبو گئے دریا
دل چٹان کی صورت سیلِ غم پہ ہنستا ہے
جب نہ بن پڑا کچھ بھی داغ دھو گئے دریا
زخمِ نامرادی سے ہم فرازؔؔ زندہ ہیں
دیکھنا سمندر میں غرق ہو گئے دریا
تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ
پھول روئے تو اسے خندۂ شاداب سمجھ
کہیں آ جائے میسر تو مقدر تیرا
ورنہ آسودگیِ دہر کو نایاب سمجھ
حسرتِ گریہ میں جو آگ ہے اشکوں میں نہیں
خشک آنکھوں کو مری چشمۂ بے آب سمجھ
موجِ دریا ہی کو آوارۂ صد شوق نہ کہہ
ریگِ ساحل کو بھی لبِ تشنۂ سیلاب سمجھ
یہ بھی وا ہے کسی مانوس کرن کی خاطر
روزنِ در کو بھی اک دیدۂ بے خواب سمجھ
اب کسے ساحلِ امید سے تکتا ہے فرازؔؔ
وہ جو ایک کشتیِ دل تھی اسے غرقاب سمجھ