وہ بھی کیسی جفائیں کرتا ہے
ہم پہ قرباں ادائیں کرتا ہے
Printable View
وہ بھی کیسی جفائیں کرتا ہے
ہم پہ قرباں ادائیں کرتا ہے
اس کی رحمت کا آسرا لے کر
آدمی سو خطائیں کرتا ہے
کھینچے پھرتا ہے نیم جاں تن کو
دل بھی کسی جفائیں کرتا ہے
رات بھر لوگ جاگتے بھی ہیں
شہر بھی سائیں سائیں کرتا ہے
صبح دم روز ایک فرزانہ
جاگو، جاگو! صدائیں کرتا ہے
نہ کوئی منزل نہ کوئی راہی، نہ راہبر ہے نہ راستہ ہے
جدھر کو جس جس کے جی میں آئی اسی طرف وہ نکل پڑا ہے
بڑا زمانہ ہوا کسی نے محبتوں کے دئیے جلائے
انھی چراغوں کی روشنی نے بھرم کسی کا رکھا ہوا ہے
ابھی تو شاخوں میں زندگی ہے، ابھی تو پھولوں میں تازگی ہے
مگر خزاں اور بادِ صرصر نے ایک ڈر سا لگا دیا ہے
نہ نقشِ پا ہیں نہ بانگِ چنگ و درا کسی نے سنی ہے لیکن
یہ خاک سی کیسی اڑ رہی ہے کہ راستہ سارا اٹ گیا ہے
اک ایک دانے کو ایک دنیا تڑپ رہی ہے سسک رہی ہے
ادھر خدائی کے دعویداروں نے سارا غلہ جلا دیا ہے