معذور ہیں تلوّنِ خاطر کو کیا کریں
ہم خود فرازؔؔ اپنی طبیعت سے تنگ ہیں
Printable View
معذور ہیں تلوّنِ خاطر کو کیا کریں
ہم خود فرازؔؔ اپنی طبیعت سے تنگ ہیں
وہی جنوں ہے وہی کوچۂ ملامت ہے
شکستِ دل پہ بھی عہدِ وفا سلامت ہے
یہ ہم جو باغ و بہاراں کا ذکر کرتے ہیں
تو مدعا وہ گلِ تر وہ سرو قامت ہے
بجا یہ فرصتِ ہستی مگر دلِ ناداں
نہ یاد کر کے اسے بھولنا قیامت ہے
چلی چلے یونہی رسمِ وفا و مشقِ ستم
کہ تیغِ یار و سروِ دوستاں سلامت ہے
سکوتِ بحر سے ساحل لرز رہا ہے مگر
یہ خامشی کسی طوفان کی علامت ہے
عجیب وضع کا احمد فرازؔؔ ہے شاعر
کہ دل دریدہ مگر پیرہن سلامت ہے
روز کی مسافت سے چُور ہو گئے دریا
پتھروں کے سینوں پر تھک گئے سو گئے دریا
جانے کون کاٹے گا فصل لعل و گہر کی
ریتلی زمینوں میں سنگ بو گئے دریا
اے سحابِ غم کب تک یہ گریز آنکھوں سے
انتظارِ طوفان میں خشک ہو گئے دریا