کیا قیامت ہے کہ جن کے لئے رُک رُک کے چلے
اب وہی لوگ ہمیں آبلہ پا کہتے ہیں
Printable View
کیا قیامت ہے کہ جن کے لئے رُک رُک کے چلے
اب وہی لوگ ہمیں آبلہ پا کہتے ہیں
کوئی بتلاؤ کہ اک عمر کا بچھڑا محبوب
اتفاقاََ کہیں مل جائے تو کیا کہتے ہیں
یہ بھی اندازِ سخن ہے کہ جفا کو تیری
غمزہ و عشوہ و انداز و ادا کہتے ہیں
جب تلک دُور ہے تُو تیری پرستش کر لیں
ہم جسے چھو نہ سکیں اُس کو خدا کہتے ہیں
کیا تعجب ہے کہ ہم اہلِ تمنا کو فرازؔؔ
وہ جو محرومِ تمنا ہیں بُرا کہتے ہیں
گل ہو چراغِ مے تو سزاوارِ سنگ ہیں
مینا سرشت ہم بھی شہیدانِ رنگ ہیں
مطرب کی بے دلی ہے کہ محفل کی بے حسی
کس تیغ سے ہلاکِ نوا ہائے چنگ ہیں؟
دل خلوتِ خیال کی آرائشوں میں گم
آنکھیں نگار خانۂ ہستی پہ دنگ ہیں
تاب و تواں نہیں ہے مگر حوصلے تو دیکھ
شیشہ صفات پھر بھی حریفانِ سنگ ہیں
اے حسنِ سادہ دل تری رسوائیاں نہ ہوں
کچھ لوگ کشتۂ ہوسِ نام و ننگ ہیں