ابتر کاٹی ہیں راتیں
سو کر کاٹی ہیں راتیں
Printable View
ابتر کاٹی ہیں راتیں
سو کر کاٹی ہیں راتیں
ریشہ ریشہ سپنوں کا
بن کر کاٹی ہیں راتیں
بیٹھے بیٹھے آنکھوں میں
اکثر کاٹی ہیں راتیں
سنتے ہیں کہ اس نے بھی
رو کر کاٹی ہیں راتیں
رکھ کر سینے پر ہم نے
پتھر کاٹی ہیں راتیں
شانت پور کے لوگوں نے
ڈر ڈر کاٹی ہیں راتیں
تم نے بھی تو آسی جی
مر مر کاٹی ہیں راتیں
شیخ جی کار و بار کرتے ہیں
اپنے سجدے شمار کرتے ہیں
ہم جنہیں بولنا نہیں آتا
شاعری اختیار کرتے ہیں
مہرباں ہم تری عنایت کا
آج تک انتظار کرتے ہیں