بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
Printable View
بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
علاج اس دلِ درد آشنا کا کیا کیجیے
کہ تیر بن کہ جسے حرف غمگساری لگے
ہمارے پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
فرازؔؔ تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیارے لگے
سو دوریوں پہ بھی مرے دل سے جدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی مگر بے وفا نہ تھی
دل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دیا
ورنہ وہ آنکھ اتنی زیادہ خفا نہ تھی
یوں دل لرز اُٹھا ہے کسی کو پکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
برگِ خزاں جو شاخ سے ٹوٹا وہ خاک تھا
اس جاں سپردگی کے تو قابل ہوا نہ تھی
جگنو کی روشنی سے بھی کیا کیا بھڑک اُٹھی
اس شہر کی فضا کہ چراغ آشنا نہ تھی
مرہونِ آسماں جو رہے اُن کو دیکھ کر
خوش ہوں کہ میرے ہونٹوں پہ کوئی دعا نہ تھی