آدمی کو وقار مل جائے
گر جبیں کو غبار مل جائے
Printable View
آدمی کو وقار مل جائے
گر جبیں کو غبار مل جائے
کس کو پروا رہے مصائب کی
فکر کو گر نکھار مل جائے
آدمیت کا حسن ہے وہ شخص
جس کو ان کا شعار مل جائے
اک تمنا بڑے دنوں سے ہے
لیلئ کوئے یار مل جائے
وہ بڑا خوش نصیب ہے جس کو
لذتِ انتظار مل جائے
اک ذرا سوچئے تو، ہو گا کیا
گر جنوں کو قرار مل جائے
آپ سے رشتے کی صورت اور ہے
اور ہے ملنا محبت اور ہے
میرے اندر تھا جو انساں مر گیا
موت کی اب کیا ضرورت اور ہے
چھا رہے ہیں بے یقینی کے سحاب
آج بھی موسم کی نیت اور ہے
خوف کا ہر سر پہ سورج ہے رکھا
اس سے بڑھ کر کیا قیامت اور ہے